دل ‏کا ‏یقین / Faith of heart

تقریباً سو برس پہلے کی بات ہے۔ جونپور شہر میں سناروں کا ایک خاندان آباد تھا خاندان کا سربراہ سندر لال نامی ایک بڑا زیرک، تجربہ کار اور جہاندیدہ شخص تھا۔بے شمار دولت اور جائداد اس کے پاس تھی۔بیچ شہر کے چوراہے پر سونے چاندی کی بہت بڑی دوکان بھی اسکی تھی۔ کاروبار اتنے عروج پر تھا کہ رات دن ہن برستا تھا۔لیکن ساری دولت و خوشحالی کے باوجود سندر لال کی دنیا تاریک تھی۔ وہ اکثر اداس اور ملول رہا کرتا تھا اس کی بیوی دولت مند گھرانے کی حسین و جمیل عورت تھی۔ اس کے رخ و عارض اور قد و قامت کی زیبائی ایک خاص سانچے میں ڈھلی ہوئی معلوم ہوتی تھی سندر لال جب بہت پریشان نظر آتا تو وہ دل موہ لینے والی آواز اسے تسلی دیتی۔
 
" ناحق آپ اپنا خون جلاتے ہیں۔ اولاد قدرت کا ایک انمول عطیہ ہے۔ وہ کسی بندے کے اختیار میں نہیں ہے جس دن مالک کی کرپا ہوجائے گی آپ کے نام کا چراغ جل اٹھے گا۔ وقت کا انتظار کیجئے۔ سنسار کا پالنہار اپنی چوکھٹ سے محروم نہیں کرے گا۔ ایک نہ ایک دن ہاری آرزوؤں کی کلی کھل کر رہے گی"۔
 
 
Faith of heart, Dil, GrowingPlant,

 
حسین و دلکش بیوی کی باتوں سے شبنم کی ٹھنڈی بوند ٹپکتی اور تھوڑی دیر کے لیے دل کی آگ بجھ جاتی۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد دھواں اٹھنے لگتا اور پھر سلگنے کی کیفیت چہرے سے نمایاں ہوجاتی۔

بیوی کا حال بھی اپنے شوہر سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھا۔ اس کی مامتا کا سوکھا ہوا چشمہ اس کی آغوش کی ویران محفل اور اس کی راتوں کی اداس تنہائی اندر ہی اندر اسے تڑپاتی رہتی تھی۔ چونکہ فطرتاً وہ بہت زیادہ متحمل مزاج اور صبر آزما واقع ہوئی تھی اس لیے اس کے دل کی بے قراریوں کا اظہار نہیں ہوپاتا تھا۔ یوں بھی عورت کی سرشت بہت زیادہ غم فراموش اور شکیب پرور ہوتی ہے۔ ویسے ہی وہ بھی اپنی غم نصیبی پر سلگتی رہتی تھی لیکن آنکھوں کے چلمن سے دھواں نہیں اٹھتا تھا۔
 
محرم کا پرسوز موسم تھا۔ بھیگی ہوئی پلکوں کے سائے میں ہر طرف شہیدان وفا کی یاد منائی جارہی تھی آہ و گریہ کے پھیلے ہوئے اضطراب سے ایسا معلوم ہو رہا تھا۔ جیسے یہ لرزہ خیز واقعہ کل ہی رونما ہوا ہے۔
 
سندر لال سنار کی دیوار سے بالکل لگی ہوئی دیوار ایک خوش عقیدہ مسلمان کی تھی۔ اس کا سید شریف تھا۔ وہ ان اعتدال پسند لوگوں میں سے تھا۔ جو شہیدوں کی روحانی توانائی پر محسوس قوتوں کی طرح یقین رکھتے ہیں۔ لیکن عقیدت و محبت کے اظہار کے لیے شریعت کے مقرر کردہ حدود سے قدم باہر نہیں نکالتے۔ وہ ہر سال محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو نہایت اہتمام کے ساتھ ذکر شہادت کی محفل منعقد کیا کرتا تھا۔ جس میں شہر کے سارے معززین اور عاشقان اہل بیت انتہائی جذبہ عقیدت کے ساتھ شریک ہوتے تھے۔ مجلس کے اختتام پر شہدائے کربلا کی ارواح طیبات کو شربت وغیرہ کا ایصالِ ثواب کیا جاتا تھا۔ جسے تبرک کے طور پر حاضرین مجلس کو تقسیم کر دیا جاتا تھا۔
 
یہ اس کے ہر سال کا معمول تھا۔ لیکن آج جس واقعہ کی سارے شہر میں دھوم مچی ہوئی تھی۔ وہ محرم الحرام کی عام روایات سے بالکل مختلف تھا۔ آج صبح سے ہی سید شریف کے دروازے پر شہر کے بے شمار فقراء و مساکین کی بھیڑ لگی ہوئی تھی اور ان پر بے دریغ پیسے لٹائے جا رہے تھے۔
 
دریافت کرنے پر معلوم ہوا صاحب خانہ نے آج اپنے تین مہینے کے شیر خوار بچے کو پیسوں کے برابر وزن کیا ہے وہی پیسے تقسیم کیے جا رہے ہیں۔ ہمسائیگی کے رشتے سے سنار کی بیوی اکثر سید شریف کے گھر آتی جاتی رہتی تھی۔ آج کے دروازے پر سارا دن انسانوں کا ہجوم دیکھ کر تفتیش کی غرض سے شام کو اس کے گھر آئی اور سید شریف کی بیوی سے دریافت کیا۔
 
" کیوں بہن" آج تمہارے گھر پر کیا تھا۔ دن بھر فقیروں کا تانتا بندھا رہا۔
ابھی شام کو بھیڑ کم ہوئی ہے تو خیریت دریافت کرنے آگئی ہوں۔
 
"شریف کی بیوی نے جواب دیا۔ یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے؟ آج محرم کی دسویں تاریخ تھی۔ ساری دنیا کے مسلمان آج کے دن نواسہ ِرسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم فرزند بتول رضی اللّٰہ عنہا کی روح پاک کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں"۔
 
سنار کی بیوی نے مداخلت کرتے ہوئے کہا۔ وہ تو میں بھی جانتی ہوں بہن کہ آج غمی کا دن ہے۔ آج کے دن سارے مسلمان کربلا کے پاک شہیدوں کی یاد مناتے ہیں لیکن دراصل معلوم یہ کرنا چاہتی تھی کہ آج تم نے اپنے ننھے کو پیسوں میں وزن کرکے خیرات تقسیم کیا ہے۔ کیا محرم کی مذہبی رسومات میں یہ بھی شامل ہے؟
 
سید شریف کی بیوی نے غلط فہمی دور کرنے کے انداز میں کہا۔
" محرم کی رسومات میں یہ شامل نہیں ہے۔ ویسے خبر صحیح ملی ہے تمہیں۔ مگر اس کی کہانی بڑی درد انگیز ہے۔ وہ تمہاری سمجھ میں نہیں آئےگی"۔
 
سنار کی بیوی اس جواب پر چونک گئی۔ اس نے دبی زبان سے جھجکتے ہوئے کہا۔ صحیح ہے کہ میں ہندو دھرم کی ماننے والی ہوں۔ لیکن کسی واقعہ کے سمجھنے کا تعلق دھرم سے نہیں ہے' حقیقت کی کہانی کوئی بھی سمجھ سکتا ہے۔ یہ عذر بیان کرکے تم نے اور بھی مشتاق بنا دیا اب تو یہ کہانی میں سن کر ہی اٹھوں گی"۔
اس کے جنون انگیز اصرار پر شریف کی بیوی مجبور ہوگئی اور سنبھل کر بیٹھتے ہوئے اپنی کہانی کا آغاز کیا۔

اپنے دھرم کے مطابق ہم شہیدوں کو زندہ جاوید سمجھتے ہیں۔ ان انہی شہیدوں کے سب سے بڑے سردار کی شہادت کا دن تھا۔ وہ ہمارے پاک نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے لاڈلے نواسے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ان کی دلاری بیٹی حضرت بی بی فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا نور کے برستے ہوئے بادل میں صبح و شام اپنے لعل کو نہلایا کرتی تھیں۔ یہ بات بھی ہمیں اوپر سے ہی ہمیں پہنچی ہےکہ رحمتوں کے جس آبشار سے ان راج دلاروں نے دودھ پیا ہے اس کا سوتا دریائے قدس سے جا ملتا یے۔

ہماری کتابوں میں لکھا ہے کہ ہمارے سرکار صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے کو شہادت کے بعد بہت بڑا درجہ ملا ہے۔ اب وہ کربلا کے راج سنگھاسن سے دونوں جگ پر حکومت کرتے ہیں۔ خدا کی بات پر انہوں نے اپنا سر کٹایا' اس لئے اب ان کی بات کبھی رد نہیں ہوتی"۔
 
 
inside view shrine of imam hussain, Karbala, Iraq, 10 Muhrram, Aashura, battle of karbala, Ahl e Bait,


ہمارے سماج میں ایسے بہت سے زندہ واقعات موجود ہیں کہ ان کے چاہنے والے دکھیاروں نے جب اپنے دل کے سوز کے ساتھ انہیں پکارا تو وہ غیبی راستے سے پلک جھپکتے آگئے۔ انہیں خدا نے دیکھنے اور سننے کی اتھاہ قوت عطا فرمائی ہے۔

دور کیوں جاؤ؟ ایک تازہ مثال ہماری ہی موجود ہے۔ تمہیں معلوم ہے کہ اللہ کا دیا سب کچھ موجود ہے۔ دھن دولت ، نوکر چاکر، زمین اور آسائش و عزت کی کوئی کمی نہیں ہے۔ لیکن گھر میں جب تک کوئی چراغ جلانے والا نہ ہو سارا دھن بے کار ہے۔ہم دونوں میاں بیوی ہمیشہ اپنے تقدیر کا ماتم کرتے رہے ہیں۔ علاقے میں کوئی ایسا پیر فقیر اور وید حکیم نہیں جس کے پاس ہم اپنی فریاد لیکر نا گئے ہوں، لیکن کہیں ہماری مراد بر نہ آئی۔


جب ہم ہر طرف سے مایوس ہوگئے تو گزشتہ سال اسی محرم کے موقع پر جبکہ ہم سب روزہ سے تھے، شام کو افطار کے وقت ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ اچانک بیٹھے بٹھائے میری آنکھوں سے بے تحاشا آنسو رواں ہوگئے۔ رہ رہ کر یہ خیال نشتر کی طرح دل میں چبھنے لگاکہ کاش! آج ہماری گود میں بچے ہوتے تو وہ بھی افطار پرہمارے ہمراہ بیٹھتے ہر چند اس خیال کو دل سے نکالنا چاہتی تھی۔ لیکن آتش صحرا کی طرح دم کے دم میں یہ آگ سارے جسم کے اندر پھیل گئی۔ بال بال سے چنگاری پھوٹنے لگی۔ سالہا سال سے ضبط و شکیب کا تھما ہوا ساگر آج امنڈ پڑا تھا اسی اضطراب انگیز ہیجان کے عالم میں بے ساختہ ایک چیخ نکل پڑی۔

یا حسین رضی اللہ عنہ!  مایوسیوں کے منجدھار سے اب تمہی ایک ڈوبتی ہوئی کشتی کو باہر نکالو ایک ایک کرکے امیدوں کے سارے دیپ بجھ گئے۔
فاطمہ رضی اللہ عنہا کے راج دلارے،  مانگنے والوں کو تمہاری چوکھٹ سے کیا نہیں ملاہے اپنے قدموں کے دھول کی ایک چٹکی میرے آنچل میں ڈال دو۔ زندگی بھر کا ارمان پورا ہوجائے گا۔

شہنشاۂ کونین ﷺ کے شہزادے، تمہیں کربلا کے لالہ زار میں منہ لپیٹ کر سوئے ہوئے ہزار برس سے اوپر گزر گئے۔ لیکن آج بھی تمہارے نام کا ڈنکا گلی گلی میں بج رہا ہے۔
عالم ہستی کا راج کمار، اپنی دولت اقبال کا ایک چراغ میرے گھرمیں بھی جلادو تمہارے گھر میں چراغوں کی کمی نہیں ہے سرکار"!

بڑی مشکل سے گھر والوں نے میرے جذبات کے دمکتے ہوئے انگاروں پر پانی کا چھینٹا دیا، یہاں تک کے کافی دیر کے بعد رفتہ رفتہ میری حالت سکون پزیر ہوئی۔   روزے کی تھکان تو تھی ہی، دل کی اس ہنگامہ خیز کیفیت نے سارے جسم  کو نڈھال کر دیا تھا۔ بغیر کچھ کھائے پیئے چارپائی پر لیٹ گئی۔ چند ہی لمحے کے بعد گہری نیند آگئی پچھلے پہر ایک نہایت سہانا خواب میں نے دیکھا۔

اتنا یاد ہے کہ تن تنہا میں ایک میدان میں کھڑی ہوں رات کا وقت ہے۔ اندھیرا اتنا گہرا ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ نظر نہیں آتا۔ اسی درمیان میں اچانک آسمان سے ایک ستارہ ٹوٹا اور میری گود میں آکر گرپڑا۔ ایک روشنی چمکی اور فضاؤں میں بکھر گئی۔ کہیں پاس ہی سے یہ آواز کان میں آئی"۔

shrine view of imam hussain, Karbala, iraq, muharram wallpaper, islamic wallpaper,

 
 
جا!  مایوسیوں کے منجدھار سے تیری کشتی نکال دی گئی۔ صدا لگانے والوں کو محروم واپس کرنا ہمارے گھر کی ریت نہیں ہے۔ تاریکیوں کی عمر ختم ہوگئی اب جلد ہی تیرے گھر میں چراغ روشن ہوگا۔

 اس کے بعد میری آںکھ کھل گئی۔ نشاط و سرور کی لذتوں سے اچانک میری روح جاگ اٹھی تھی۔ امیدوں کی مرجھائی ہوئی کلیوں کو زندگی کا نیا فروغ مل گیا۔

ابھی چند دن بھی نہیں گزرنے پائے تھے کہ میرا یہ خواب سچ ہونے لگا اور ٹھیک نو مہینے کے بعد ایک دن اس خواب کی تعبیر میری گود میں مچلنے لگی۔ یہ وہی ننھا ہے جسے پیسوں میں وزن کرکے آج سرکار کے نام کی خیرات لٹائی گئی ہے۔

سنار کی بیوی انتہائی محویت کے عالم میں یہ کہانی سن رہی تھی۔ کہانی کے اختتام پر اس کی آنکھیں بند ہوگئیں چند ہی لمحے کے بعد آنکھیں کھلیں تو پلکیں بھیگ گئی تھیں اور موٹے موٹے اشک کے دو قطرے عارض پر ٹوٹ کر بہہ رہے تھے۔
حیرانی کے عالم میں شریف کی بیوی نے دریافت کیا"۔
ہائے اللہ!  تم رونے کیوں لگیں؟ کیا تمہیں میری کہانی کے آخری حصے سے دکھ پہنچا ہے؟"۔

بس اتنا پوچھنا تھا کہ وہ پھوٹ پڑی اور بے اختیار آنکھوں سے آنسوؤں کا طوفان امنڈنے لگا۔ شریف کی بیوی نے جلد جلد آنچل کے گوشے سے اس کے آنسوؤں کا سیلاب خشک کیا اور تسلی دیتے ہوئے رونے کی وجہ دریافت کی۔ کچھ دیر کے بعد جب اسے افاقہ ہوا تو بھر آئی ہوئی آواز میں جواب دیا۔

بہن! تمہیں معلوم ہے کہ ہمارا سینہ بھی اسی نشتر سے گھائل ہے جس نے تمہیں برسوں تڑپایا ہے۔ ہم بھی مایوسیوں کے اتھاہ ساگر میں ڈوب رہے ہیں۔ اب اپنی آرزوؤں کی ویرانی نہیں دیکھی جاتی۔ تمہاری کہانی سن کر اس ارمان میں آنسو نکل آئے ہیں کہ بی بی فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا کے راجکمار ایک ہندو کی فریاد کیونکر سنیں گے۔ کاش!....... میں بھی ان کے گھر کی لونڈیوں کی قطار میں کھڑے ہونے کے قابل ہوتی"۔

اتنا کہتے کہتے پھر اس کی پلکیں نم ہوگئیں اور فرطِ اضطراب سے آواز حلق میں پھنس کر رہ گئی۔ شریف کی بیوی نے دلاسہ دیتے ہوئے کہا۔

ایسا مت سوچو۔ ان کے نانا جان صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سارے سنسار کے لیے رحمت بن کر آئے ہیں اس گھر کے راجکمار فریاد سننے کے لیے دکھیاروں کا دھرم نہیں دیکھتے۔ جو مصیبت کا مارا بھی انکی چوکھٹ پر کھڑا ہو جائے۔ وہ خدا کی دی ہوئی شکتی سے اس کی مصیبتوں کی بیڑی ضرور کاٹ دیتے ہیں۔ اچھی طرح یہ بات ذہن نشین کرلو کہ اسلام کا دھرم کارسازی کی رشوتوں سے نہیں پھیلا ہے۔ اس کی سچائی دل کے گوشوں میں خود اپنی جگہ بنا لیتی ہے"۔

یہ جواب سن کر امیدوں کی ایک نئی تازگی سے سنار کی بیوی کا چہرہ کھل اٹھا اس نے تنکے کا سہارا ڈھونڈنے کے انداز میں کہا۔

تو بہن' پھر ہمارے لئے بھی کربلا کی راجدھانی تک فریاد پہنچانے کا کوئی راستہ نکالو۔ ہوسکتا ہے ہماری گود کی ویران محفل ان کی کرپا سے جگمگا اٹھے"۔

شریف کی بیوی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ کوئی ذریعہ تلاش کرنے کی بجائے خود ہی تم ان کا دھیان کرکے اپنے ٹوٹے ہوئے دل کی زبان میں ان سے فریاد کرو۔ تمہاری پکار ان کی چوکھٹ تک ضرور پہنچا جائے گی۔ اس طرح کے معاملے میں اصل چیز دل کا یقین ہے اور بہتر ہوگا کہ کربلا کی راجدھانی تک اپنا پیغام بھیجنے سے پہلے ان کے نام پر فاتحہ کیے ہوئے شربت کے چند گھونٹ پی لو۔ میرے خیال میں اس کی برکت تمہارے دل کی آواز میں ضرور شامل ہوگی۔

سنار کی بیوی نے نہایت عقیدت کے ساتھ شربت کے چند گھونٹ پی کر کربلا کی طرف منہ کیا اور دل میں شہزادۂ کونین صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی سرکار میں اپنا استغاثہ پیش کردیا"۔

دل کا یقین بھی غمزدوں کا کیسا خیراندیش ساتھی ہے' اس کا اندازہ لگانا ہوتا تاریخ عالم کا مطالعہ کیجئے۔ زندگی کی ایسی بے شمار مہم آپ کو ملیں گی جو صرف یقین کے بل پر سر ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر اسی سنار کی بیوی کا واقعہ لے لیجئے جب یہ اٹھ کر اپنے گھر واپس گئی تو اسے نامعلوم طور پر امید ہوگئی تھی کہ کربلا کی راجدھانی میں پیش کی ہوئی فریاد رائیگاں نہیں جائے گی۔

دوسرے دن اس نے اپنے شوہر سے جب اس کا تزکرہ کیا تو وہ صرف اپنی لاڈلی بیوی کی دلدہی کی خاطر اس کی خوشی میں شریک ہوگیا۔ اسے قطعاً یقین نہیں آیا کہ صرف ایک خیالی بنیاد پر نامرادیوں کا طلسم ٹوٹ جائے گا جسے توڑنے کے لیے عمر بھر کی جدو جہد بھی بیکار ثابت ہوئی ہے۔ اس کا ذہن اسے کسی طرح قبول نہیں کررہا تھا کہ سید شریف کے یہاں جو بچہ تولد ہوا ہے اس کے پیچھے کسی کا روحانی تصرف کارفرما ہے۔اس کا خیال تھا کہ ہر چیز کا وقت معین ہوتا ہے جب اس کا وقت آجاتاہے تو وہ چیز خود بخود ظاہر ہوجاتی ہے عالمِ ہستی کا یہ کارخانہ ہمیشہ سے اسی ڈھنگ پر چل رہا ہے اور چلتا رہے گا۔ بیوی کی زبان سے سارا قصہ سن کر بھی اس کی مایوسی اپنی جگہ بدستور قائم رہی۔

لیکن بیوی کے دل کا حال بالکل الگ تھلگ تھا وہ ہر وقت اس ہقین کے اجالے میں رہتی تھی کہ شریف کی بیوی کی کہانی کبھی غلط نہیں ہوسکتی۔ اگر اس کی اجڑی ہوئی گود کی آبادی میں شہید کربلا کے روحانی فیضان کا دخل نہیں ہوتا تو کیا اسے ہزاروں روپے کاٹ رہے تھے جو اس نے خراج عقیدت کے طور پر فقیروں پر لٹائے تھے۔

امید و خوش عقیدگی کے اسی ہجوم میں اس کی زندگی کا کاروں آگے بڑھتا رہا۔ کئی مہینے گزرنے کے بعد ایک دن اس کے شوہر نے اسے ایسا سخت طعنہ دیا کہ اس کے یقین کا آبگینہ گھائل ہوکے رہ گیا۔ اس دن سے وہ بہت اداس رہنے لگی۔ شاخ سے ٹوٹ جانے والے پتےکی طرح اس کے چہرے کی تمام رونقیں اُڑ گئیں۔ اب شریف کی بیوی سے ملنا جلنا بھی اس نے کم کردیا۔ اپنی زود اندیشی پر دل ہی دل میں اسے پشیمانی کا احساس بڑھنے لگا۔

اب پھر امیدوں کی دنیا تاریک ہوگئی۔ دل کا حال پھر اسی مقام پر پلٹ آیا جہاں سے دسویں محرم کو اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔

انہی پرسوز اور جاں گسل مرحلے سے وہ گزر رہی تھی کہ اچانک ایک دن اسے ایسا محسوس ہوا کہ کسی مرکز تمنا کی وہ حامل ہوگئی ہے۔ لیکن پھر اس نے خیال کیا کہ ہو سکتا ہے یہ احساس کے لاشعور کی کوئی مصنوعی کیفیت ہو۔ بات ابھی چونکہ وہم کے درجے میں تھی اس لیے اس نے اس کا انکشاف کسی پر نہیں کیا لیکن دوسرے مہینے میں جب یقین کے آثار پوری طرح عیاں ہوگئے اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہی"۔

جب اس نے اپنے شوہر کو اس کی اطلاع دی تو وہ فرطِ حیرت سے اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ بے خودی کی حالت میں وہ پاگلوں کی طرح ناچنے لگا"۔

اسی والہانہ کیفیت میں اس نے پھر دریافت کیا۔ میرے سر کی قسم کھا کر کہوکہ تم غلط نہیں بول رہی ہو"۔

بیوی نے سنجیدہ ہوکر جواب دیا۔ غلط وہاں بولا جاتا ہے جہاں غلطی چھپائی جاسکتی ہو۔ یقین کرو یہ بالکل سچ ہے۔ میں نے تمہیں جھوٹی خبر نہیں دی ہے۔ ویسے آج نہیں تو کل میرا جھوٹ سچ ظاہر ہوہی جائے گا۔ وقت کا انتظار کرو۔

شہر کی سب سے مشہور دایہ نے بھی جب اس کی تصدیق کردی تو شوہر کی مسرتوں کا عالم قابو سے باہر ہوگیا۔
فرط ندامت سے وہ اپنا منہ پیٹنے لگا۔

کربلا والے شہید' میری غلطی معاف کردو۔ میں نے تمہاری روحانی شکتی کا غلط اندازہ لگایا تھا۔ اپنی لاعلمی سے میں نے تمہارے ادھیکار کا اکمان کیا ہے۔ دیالو مہاراج! میں اپرادھی ہوں۔ اپنی کرپا سے مجھے چھما کردو"۔

Areal View Shrine of Imam Hussain R.A, Karbala,



اسی دن شام کو ایک عرصے کا بعد سنار کی بیوی شریف کے گھر گئی اور ان کی بیوی سے سارا ماجرا کہہ سنایا۔ یہ خبر سن کر خوشی سے اس کی آنکھوں میں آںسو امڈ آئے۔ اسے سب سے ذیادہ مسرت اس بات کی ہوئی کہ اسے اپنے عقیدے کی صحت کا دوسرا تجربہ ہوا۔
اس نے مسکراہٹوں کی جگمگاہٹ میں سنار کی بیوی کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا۔ " دل کا یقین اپنا اثر لائے بغیر نہیں رہتا"۔ یاد کرو میں نے تم سے اسی دن کہہ دیا تھا کہ مشکل کشائی کے لیے وہاں دھرم نہیں دیکھا جاتا فریادی کا سوز و اخلاص دیکھتے ہیں۔ دعا ہے کہ خدائے کریم خیروسلامتی کے ساتھ اس آغاز کو انجام تک پہنچائے۔

سنار کی بیوی نے جواب میں کہا۔

بی بی۔ اپنی سرگزشت کہتی ہوں یقین کرو۔ میرا ستارہ گہن میں آگیا تھا۔ وہ تو خیریت ہوئی کہ جس سرکار سے میں نے منتی کی تھی انہوں نے مجھے فوراََ ہی سنبھال لیا ورنہ میرے دل کا وشواس اٹھتا جارہا تھا۔ آج میں سوچتی ہوں تو شرم سے پانی پانی ہوجاتی ہوں۔ کبھی کبھی تو ایسی ہوک اٹھتی ہے کہ کربلا کی جس بھومی پر ان کا راج سنگھاسن رکھا ہوا ہے اسے آنکھوں سے لگا کرخوب پھوٹ پھوٹ کر روؤں۔

بہن! آج میں نے مان لیا کہ سارے جگت میں اسلام کی روحانی شکتی کا کوئی جواب نہیں ہے۔ سچ پوچھو تو ماننے کے قابل یہی دھرم ہے جس پر چل کر آدمی ایسا امر ہو جاتا ہے کہ مرنےکے بعد بھی اس کی روح کے گیان کا سوتا نہیں سوکھتا۔

خیر سے دن گزر گئے تو میں بھی اپنے سرکار کے نام پر فقیروں کو خیرات لٹاؤں گی اسی دن سارے شہر کو معلوم ہوگا کہ میرے دل کے اندھ وشواس میں کیا جادو تھا۔  اب سنسار میں میرا کچھ نہیں ہے۔ جو کچھ ہے انہی کے قدموں میں رکھ دیا ہے۔

آج صبح سے ہی سنار کے گھر پر شہنائی بج رہی تھی اندر سے لے کر باہر تک سارا ماحول خوشی کی لہروں میں ڈوبا ہوا تھا۔ دور دور سے رشتہ داروں کی سواریاں اتر رہی تھیں۔ دوسری طرف شہر کے سارے فقیر ہجوم لگائے کھڑے تھے۔

آج اس کے یہاں بچی تولد ہوئی تھی۔ دل کی انجمن میں ارمانوں کا پہلا چراغ جلا تھا مامتا کی ویران محفل آج پہلی بار آباد ہوئی تھی۔ فقیروں کو خیرات لٹاتے ہوئے فرطِ مسرت سے سنار کی آںکھیں ڈبڈبا آتی تھیں وہ بے خودی کی حالت میں زور زور سے چلا رہا تھا۔

شہید کربلا کا اقبال سلامت! آج انہی کی کرپا سے ہمارا گھر جگمگا رہا ہے۔ ایک ایسی مری ہوئی حسرت جی اٹھی ہے جس کے لیے سارے جہاں کی خاک چھان کر ہم مایوسی کے اتھاہ ساگر میں ڈوب گئے تھے"۔

فقیر اپنی جھولیاں بھر کر دعائیں دیتے ہوئے واپس چلے گئے۔ ایک دو روز کے بعد باہر سے آئے ہوئے مہمانوں کی بھیڑ بھی چھٹ گئی۔ بہت سے مہمانوں کو سنار اور اس کی بیوی کا یہ انداز پسند نہیں آیا کہ وہ ہندو دھرم رکھ کر مسلمانوں کے پیر پیغمبر کا گن گارہے تھے۔
  بعض عورتوں سے سنار کی بیوی نے جھگڑا بھی کیا اور وہ روٹھ کر چلی گئیں۔
لیکن اس نے ان کے روٹھنے کی کچھ پرواہ نہیں کی۔

چھٹی کی رسم سے فراغت کے بعد اب لاڈلی بچی کی پرورش کا اہتمام شروع ہوا۔ کئی کئی مامائیں رکھی گئیں ناز و نعمت کے سارے سامان فراہم کردیے گئے۔

بچی کیا تھی؟ حسن و زیبائی کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ایک مورت تھی جو دیکھتا حیران و ششدر رہ جاتا۔ سارے شہر میں بجلی کی طرح یہ خبر مشہور ہوگئی تھی کہ سنار کے گھر میں آسمان کی زہرا اتر آئی ہے۔

ماں باپ پیار سے اسے لالہ کہتے تھے آگے چل کر یہی نام سب کی زبانوں پر چڑھ گیا۔ لالہ جب ذرا ہوشیار ہوگئی اور باتیں کرنے لگی تو اس کی تعلیم و تربیت کا نہایت معقول اور اعلیٰ انتظام کیا گیا۔ اسی نکھرے ہوئے ماحول میں اس کے دن گزرتے گئے۔ یہاں تک کہ چودہ سال کے سن میں پہنچتے پہنچتے وہ اس زمانے کے رواج کے مطابق سارے علم و ہنر میں یکتائے روزگار بن گئی۔ اس کے ظاہر کا حُسن دلفریب ہی کیا کم تھا۔ کہ اب وہ معنوی جمال سے بھی آراستہ ہوگئی تھی۔

شباب کی منزل میں قدم رکھنے کے بعد تو وہ مجسم ساحرہ معلوم ہوتی تھی۔ پری زاد کی طرح اس کا غیر معمولی حسن سارے علاقے میں زبان زدہ ہوگیا تھا۔ ماں باپ بچپن ہی سے اسے گھر سے باہر نہیں نکنے دیتے تھے کہ کہیں نظر نا لگ جائے اور اب تو سوائے باد صبا کے کوئی اس کی خوابگاہ کے دروازے تک بھی نہیں جاسکتا تھا۔ گھر والوں کو چھوڑ کر وہ باہر کی عورتوں سے پردہ کرتی تھی۔ ایسی باحیاء اور غیورفطرت لے کر وہ پیدا ہوئی تھی کہ کبھی کبھی آئینے میں  اپنا سراپا دیکھ کر رو پڑتی تھی۔ اسے ہمیشہ یہ فکر دامن گیر رہا کرتی تھی۔ کہ ہوس پرستوں  اور بدقماشوں کی اس دنیا میں وہ کہاں اپنے لیے چھپنے کی جگہ تلاش کرے۔ کب تک ننگی تلواروں کا پہرہ اس کے حسن جہاں تاب کی حفاظت کرے گا۔

جس ماحول میں اس کی تربیت ہوئی تھی وہ شہید کربلا کی عقیدت میں ہر وقت شرابور رہا کرتا تھا۔ بات بات پر اس کی ماں کربلا والے سرکار کی دہائی دیا کرتی تھی۔ ویسے تو شعور کی منزل میں قدم رکھتے ہی اسے معلوم ہوگیا تھا کہ وہ کربلا والے سرکار کے گھر کی بھیک میں ملی ہے۔ لیکن اب قدم قدم پر ان کی عقیدت کے ہنگامۂ شوق نے اسے ایسا وارفتہ عشق بنا دیا تھا جیسے کربلا ہی کی خاک سے اس کی سرشت تیار ہوئی ہو۔

اسی دلگیر تعلق کا نتیجہ تھا کہ وہ سال میں صرف ایک بار دسویں محرم کو سید شریف کی مجلس میں شرکت کے لیے اپنے گھر سے باہر نکلتی تھی۔ کربلا کی درد انگیز سرگزشت سن کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی تھی۔ مجلس سے اٹھنے کے بعد بھی کئی دن تک اس کی پلکوں کا آنسو جذب نہیں ہوتا تھا۔ سبز جوڑا پہن کر جب وہ مجلس کے لیے تیار ہوجاتی توایسا لگتا تھا کہ کسی شاداب چمن کی ساری رعنائیاں اس کے دامن میں سمٹ آئی ہیں۔ خواتین کی بزم میں پہنچ کر وہ ماہ کامل کی طرح سب میں نمایاں اور روشن رہتی تھی۔

جب اس کی عمر اٹھارہ سال کی ہوگئی تو والدین کو اس کی شادی کی فکر دامن گیر ہوئی۔ سارے علاقے میں اس کے حُسن و شباب کی قیامتوں کا ڈنکا بج رہا تھا۔ غائبانہ طور پر اس کے عشاق کی کمی نہیں تھی۔ سینکڑوں دیوانے صرف اس گھر کے دیدار کے لیے آتے رہتے تھے۔ اس غیرت مہ و انجم کی چاندنی کا گہوارہ تھا۔

بڑے بڑے راجاؤں' نوابوں اور جاگیرداروں کے پیغامات کا انبار لگ گیا علاقے کے جاگیردار کا بیٹا تو ہزار جان سے اس پر شیفتہ تھا۔ صبح و شام اٹھتے بیٹھتے اسی کے نام کی مالا جپتا تھا۔ وہ بڑا ہی ضدی' ہوس پرست اور عیاش قسم کا نوجوان تھا قوی ہیکل غنڈوں کا ایک گروہ اس نے پال رکھا تھا جو اس کی سبشتان عیش کو گرم رکھنے کے لیے آئے دن دوشیزاؤں کے گھروں پر چھاپہ مارتے رہتے تھے۔ بڑے نازوں کا پلا ہوا وہ اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ ساری ریاست میں اس کی راج ہٹ مشہور تھی۔

سنار کی بیٹی کے حُسن کا شہرہ سن کر وہ دیوانہ ہوگیا تھا۔ اس کے حاصل کرنے کی ساری کوشیشیں جب بیکار ہوگئیں تو اداس و ملول چہرہ بنائے ہوئے وہ اپنی ماں کے پاس آیا اور فیصلہ کن انداز میں کہا۔ "جونپور کے سنار کی بیٹی سے اگر میری شادی نہیں ہوئی تومیں زہر کھا کر جان دے دوں گا"۔ اس کی ماں خاندانی راجپوت کی بیٹی تھی اس کی آن بان کسی رانی سے کم نہیں تھی۔ بیٹے کی زبان سے اس طرح کی بات سن کر للکارتے ہوئے کہا۔


راجپوت ہو کرایک معمولی سی بات کے لیے تم نے اتنی بڑی قسم کھا لی ہے۔ سنار کی کیا مجال ہے کہ وہ راج دربار کی سرتابی کرے۔ اس کا گھر پھنکوا دوں گی اور اس کی بیٹی کو لونڈی بنا کر رکھوں گی۔ تم ناحق فکر کرکے اپنی جان مت گھلاؤ۔ ویسے یہ رشتہ ہماری برابری کا نہیں ہے۔ لیکن تمہاری ضد پوری کرنے کے لیے سب کچھ کیا جاسکتا ہے"۔

دوسرے دن اپنی مخصوص دائی کے ذریعے اس نے رشتے کا پیغام سنار کے گھر بھیجا سنار کی بیوی نے پیغام سن کر جواب دیا۔

اور بھی بہت سے پیغامات آئے ہیں لیکن ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ راج ماتا سے کہہ دینا کہ وقت آنے پر دیکھا جائے گا۔

جاگیردار کی بیوی یہ جواب سن کر غصے سے سرخ ہوگئی۔ پیچ و تاب  کھاتے ہوئے دل ہی دل میں کہا۔

دیکھنا ہے وہ آسمانی حور کی شادی کہاں کرتی ہے۔ دلہن کی سجی سجائی ڈولی دروازے پر نہ منگواؤں تو میں راجپوت کی بیٹی نہیں"۔

ایک دن لالہ کی ماں نے بیٹی کا رخ معلوم کرنے کے لیے یہ ذکر چھیڑ دیا۔
بیٹی' زمانے کا دستور ہمیشہ سے چلا آرہا ہے کہ جب لڑکیاں سیانی ہوجاتی ہیں تو انہیں پرایا گھر آباد کرنا پڑتا ہے۔ بہت سے پیغامات آرہے ہیں اجازت دو تو تمہارے ہاتھ پیلے کرنے کا انتظام کیا جائے"۔
 
لالہ نے شرم سے منہ ڈھانپ لیا اور لجائی ہوئی آواز میں کہا"۔
مجھے تم پرائے گھر بھیجنا ہی چاہتی ہو تو میرا بر ایسی جگہ تلاش کرنا جو اتنا پارسا ہو کہ کسی غیر عورت کو بری نظر سے بھی نہ دیکھا ہو"۔
 
بیٹی کے مزاج اور روح کی نفاست سے گھر والے بخوبی واقف تھے۔ قدوقامت اور صورت و شکل ہی نہیں اس کے خصائل و عادات بھی عام لڑکیوں سے مختلف تھے۔ اس کے ذوق طبیعت کا پیمانہ ہی سب سے جداگانہ تھا۔ نہ اس کی کوئی سہیلی تھی نہ دل بہلانے کے لیے اس نے کوئی کھیل کھیلا تھا۔ دنیا کی عام روش سے ہٹ کر وہ ایک تنہا اور منفرد طرزِ زندگی کی خوگر بن گئی تھی"۔
 
اس کا خیال معلوم کرنے کے بعد آئے ہوئے سارے پیغامات مسترد کردیے گئے۔
ان میں سے کوئی بھی بیٹی کے پسند کردہ معیار پر پورا نہیں اترتا تھا۔
 
کافی عرصہ کے بعد ایک سنار کی بیوی سید شریف کے گھر گئی۔ دورانِ گفتگو میں لالہ کے رشتے کی بات نکل آئی سید صاحب کی بیوی نے دریافت کیا۔
 
سنا تھا کہ لالہ کے لیے بہت سے پیغامات آئے ہیں۔ ان کے متعلق کیا فیصلہ کیا۔ زیادہ انتظار مت کرو۔ کوئی مناسب رشتہ دیکھ کر بچی کے ہاتھ پیلے کردو۔ جوان بیٹی سر ہہ بوجھ بنی رہتی ہے"۔
 
سنار کی بیوی نے اداس لہجے میں جواب دیا۔
 
بہن کیا بتاؤں؟ ہم لوگ بھی اس کے رشتے کے لیے بہت پریشان ہیں۔ جتنے بھی پیغامات آئے تھے۔ وہ سب واپس کر دیے گئے۔
درمیان میں بات کاٹتے ہوئے سید صاحب کی بیوی نے دریافت کیا۔
کیا ان میں سے کوئی رشتہ بھی قابل قبول نہیں تھا؟"۔
 
سنار کی بیوی نے معذرت خواہ لہجے میں جواب دیا۔ بہت سے رشتے خاندان کے معزز گھرانوں سے آئے تھے۔ کچھ رشتے راجاؤں اور جاگیرداروں کے بھی تھے' لیکن لالہ نے ایک ایسی شرط لگا دی ہے کہ انہیں واپس کرنا پڑا۔
 
بہن! تمہیں بھی اس سے انکار نہیں ہوگا کہ یہ سودا زبردستی کا نہیں ہے۔ بچی کی مرضی کے خلاف کوئی رشتہ اس کے سر پر مسط کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ وہ بے چھوئی ہوئی شاخ کی ایک نازک کلی ہے کہیں مرجھا گئی تو سارا کھیل بگڑ جائے گا۔ بچی کا کہنا ہے کہ میرا بر ایسی جگہ تلاش کرو جو ایسا پارسا ہو کہ کسی غیر عورت کو بری نگاہ سے بھی نا دیکھا ہو۔ کئی ماہ سے لالہ کے بابو جی ایسے بر کی تلاش میں نگر نگر کی خاک چھانتے پھر رہے ہیں لیکن ابھی تک کوئی سراغ نہیں مل رہا ہے۔ تحقیق کرنے پر کوئی نہ کوئی خامی ضرور نکل آتی ہے۔ ہم اپنی لالہ کے ساتھ دھوکہ نہیں کریں گے۔ جب تک ایسا بر نہیں مل جائے گا ہم ہاتھ نہیں ڈالیں گے"۔
 
سارا قصہ سننے کے بعد سید شریف کی بیوی نے مسکراتے ہوئے کہا تمہاری لالہ جس گھر کی خیرات میں ملی ہے اس کی دیواروں کا سایہ تو اس پر پڑنا ہی چاہیے۔ برا نہ مانو تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی اور طرف جارہی ہے اس کی راہ میں حائل ہونا ٹھیک نہیں ہے سنار کی بیوی نے چونک کر دریافت کیا؟
 
بہن تمہاری بات کا مطلب میں نہیں سمجھ سکی کیا نصیب دشمناں میری لالہ کے دن خراب آنے والے ہیں!۔
 
سید شریف کی بیوی نے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے جواب دیا۔ توبہ کرو! کیسی منحوس بات تم اپنی زبان سے نکال رہی ہو۔ تمہاری لالہ پر پاک روحوں کا سایہ ہے کبھی اس کے خراب دن نہیں آسکتے۔ دراصل میری بات کا مطلب یہ تھا کہ اس کی زندگی کی باگ ڈور کسی بالائی طاقت کے ہاتھ میں ہے"۔
 
  تھوڑی دیر کے بعد جب سنار کی بیوی اپنے گھر واپس گئی تو شوہر اس کا نہایت بے چینی سے انتظار کررہا تھا۔ آج اس کا چہرہ بہت شگفتہ تھا۔ اپنی خوشی کو ضبط نہ کرسکا۔ نظر پڑتے ہی چیخ اٹھا۔

مبارک ہو لچھمی! بہت ہی شاندار اور بھروسے کے لائق بر مل گیا۔ یہاں سے سات میل کے فاصلے پر نور الدین پور نام کا جو گاؤں ہے وہیں برادری کا ایک لڑکا ہے جس کی عمر پچیس سال ہے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ بچپن سے ہی اسے ایک پہنچے ہوئے فقیر کی صحبت نصیب ہو گئی تھی۔ آج تک اس نے گھر سے باہر قدم نہیں نکالا۔ محلے کے لوگ بھی اسے نہیں پہچانتے۔ اپنے باپ سے اس نے زرگری کا فن سیکھ لیا ہے۔ گھر میں ہی بیٹھے بیٹھے گزربسر کے لائق کما لیتا ہے۔ اس کی صرف ایک بوڑھی ماں ہے۔ مدت ہوئی باپ کا انتقال ہوگیا۔ سارا گاؤں اس بات کا شاہد ہے کہ آج تک اس نے غیر عورت کو نظر اٹھا کر نہیں دیکھا ہے۔ بہت ہی نیک پاک دامن شرمیلا لڑکا معلوم ہوتا ہے۔ صورت شکل تو ایسی پائی ہے کہ دل میں بٹھا لینے کو جی چاہتا ہے۔ ویسے اس کے گھر میں دھن دولت نہیں ہے لیکن ہاتھ پاؤں کا مضبوط اور صحت مند ہے اپنی ماں سے اس نے بھی کہہ رکھا ہے کہ میرا بر ایسی جگہ تلاش کرنا جس لڑکی نے ساری زندگی کسی غیر مرد کا چہرہ نہ دیکھا ہو"۔

بیوی یہ تفصیل معلوم کرکے باغ باغ ہوگئی اس کا دل خوشی سے ناچنے لگا۔ اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے فیصلہ کن انداز میں کہا۔ 

"بغیر کسی ہچکچاہٹ کے یہ رشتہ منظور کرلینا چاہیے۔ دھن دولت کوئی چیز نہیں ہے لڑکا کھرا ہے تو ہمیں اور کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ مالک کا دیا سب کچھ ہے۔ مالک کا نام لے کر کل شبھ گھڑی میں منگنی کی رسم ادا کر آئیے"۔

میاں بیوی کے مشورے سے یہ رشتہ طے پا گیا۔ دوسرے دن سنار نے منگنی کی رسم ادا کردی اور خوشی خوشی واپس لوٹ آیا"۔


سید شریف کی بیوی نے بھی اس رشتے کو بے حد پسند کیا۔
لڑکے کی طرف سے شادی کے جملہ رسومات کا خرچ بھی سنار ہی نے اپنے ذمہ لے لیا تھا۔ اب دونوں طرف نہایت دھوم دھام سے شادی کی تیاریاں ہونے لگیں۔ سارے شہر میں یہ خبر بجلی کی طرح پھیل گئی۔ بہت سے لوگ اچنبھے میں اس خوش نصیب کو کے لیے اس کے گاؤں پہنچ گئے لیکن گھر ہی دیکھ کر انہیں واپس لوٹ آنا پڑا۔

آج سنار کے گھر میں مسرت و نشاط کی فصل بہار آگئی تھی۔ اندر سے باہر تک ہر طرف خوشی کے شادیانے بج رہے تھے۔ بڑی آرزؤں کے بعد اکلوتی بیٹی کی شادی کے یہ دن نصیب ہوئے تھے۔ ارمانوں کے ہجوم میں آج لالہ دلہن بنائی جارہی تھی۔ ایک مہینے تک ہلدی کے ابٹن نے اسے آبِ زر کی طرح چمکا دیا تھا۔ فنکار مشاطاؤں نے جب اسے بنا سنوار کر حجلہ عروسی میں پہنچایا تو دیکھنے والوں کی آںکھیں چکا چوند ہوکے رہ گئیں۔ شفاف جھیل کی طرح چمکتی ہوئی آنکھوں میں کاجل کی لکیر، کالی گھٹاؤں کے افق پر سفید افشاں کی جگمگاہٹ اور بیچ میں سندور کی لالی، موسم برسات کے ڈوبتے ہوئے سورج کی تصویر اتار لائی تھی۔ ہزار اہتمام کے باوجود گھونگٹ کا چلمن اس ماہ دش کی چاندنی پر حائل نہیں ہوسکا تھا۔ فرطِ حیاء سے جھکی ہوئی پلکوں کا عالم سوئی ہوئی قیامت کا صیح نمونہ تھا اور شادی کا سرخ جوڑا زیب تن کر لینے کے بعد تو ایسا لگتا تھا کہ کسی لالہ زار کی پری اتر آئی ہے۔

آج حسن و شباب کا عروج اس نقطہ انتہا پر پہنچ گیا تھا۔ کہ اجنبی نگاہوں پر پہرے بٹھا دیے گئے تھے۔ اپنے وقت کی سینکڑوں مہ لقائیں محروم واپس لوٹ گئیں جو اس زہرہ جمال کا شہرۂ حسن سن کر صرف ایک جھلک دیکھنے کا اشتیاق لے کر آئیں تھیں۔ سید شریف کی بیوی کے سوا گھونگھٹ اٹھا کر چہرہ دیکھنے کی اجازت کسی کو نہ تھی۔

شام ہوتے ہی شہر کے معززین جمع ہونے لگے، اب بارات کے خیرمقدم کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ فانوسوں کے نقاب میں جلتے ہوئے چراغوں کی لمبی قطار بارات کے آگے آگے چل رہی تھی۔ جونہی بارات دروازے پر پہنچی دولہا کو دیکھنے کے لیے ہزاروں شائقین کا مجمع ٹوٹ پڑا۔ دیکھنے والوں کو اس سے زیادہ اور کچھ نظر نہیں آیا کہ پھولوں کی لڑیوں میں ایک شرم و حیاء کا مجسمہ چھوئی موئی کی طرح سمٹا ہوا تھا۔ سب سے پہلے عورتوں نے ہندو دھرم کے مطابق دولہا کی آرتی اتاری اس کے بعد منڈپ میں ایک مخصوص جگہ پر اسے بٹھا دیا گیا۔

رات ڈھل گئی تو شہر کے سب سے بڑے پنڈت نے چند اشلوک پڑھ کر دولہا اور دلہن کے درمیان بیاہ کا رشتہ جوڑ دیا۔

کہتے ہیں کہ آرسی درشن کے وقت کا منظر بڑا ہی رومان انگیز تھا۔ پہلی مرتبہ آئینے کے اندر دولہا نے ایک زہرہ جمال دوشیزہ اور پارسا دلہن کے چہرے کا عکس دیکھا تھا۔ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ پر حسن و زیبائی کے تیر و ترکش سے مسلح تھے۔ دونوں میں سے کسی کا وار خالی نہیں گیا۔ ایک دوسرے کے نشتر سے دونوں گھائل ہو کر رہ گئے۔ دلوں کے نازک آبگینے نظر کی چوٹ سنبھال نہیں سکے۔ شیشہ ٹوٹنے کی آواز کان میں آئی اور آنکھیں بند ہوگئیں۔

دوسرے دن دوپہر ڈھل جانے کے بعد رخصتی کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ دلہن کی پالکی دروازے پر لگا دی گئی۔ جس لاڈلی بیٹی کو بیس سال تک پلکوں کے سائے میں پالا تھا آج اسے جدا کرتے ہوئے ماں کا کلیجہ پھٹا جارہا تھا۔ رخصت کی گھڑی قیامت سے کم نہیں تھی۔ باپ کو غشی پر غشی آرہی تھی ماں شدت کرب سے پاگل ہوگئی تھی۔

سید شریف کی بیوی لالہ کو اپنے بازوؤں کی گرفت میں دروازے تک لے گئی۔ سر پر ہاتھ رکھ کر کربلا والے سرکار کی دہائی دی اور پالکی میں سوار کردیا۔

آہ و نالہ اور گریہ بقا کے شور میں لالہ پرائے گھر کے لیے رخصت ہوگئی۔ کہاروں نے دلہن کی پالکی اٹھائی دولہا کی سواری آگے بڑھ گئی۔

جب سے ایک غریب سنار کے ساتھ لالہ کی شادی کی تیاریوں کا سلسلہ شروع ہوا جاگیر دار کی راجپوتنی بیوی غیظ و حسد کی آگ میں جل رہی تھی۔

آج آتش انتقام کے بھڑکنے کا دن تھا۔ صبح سے ہی اس کے ہرکارے منٹ منٹ کی خبر دے رہے تھے۔ عین دوپہر کے وقت ایک مخبر نے آکر اطلاع دی کہ خبر ملی ہے کہ سورج ڈھلنے کے بعد دولہن رخصت کردی جائے گی۔

یہ خبر سنتے ہی راجپوتنی کا چہرہ تمتما اٹھا تیوری چڑھا کر اس نے اپنے جوان بیٹے سے کہا تیری رگوں میں راجپوت کا سچا خون ہے تو آج سورج ڈوبنے سے پہلے سنار کی بیٹی کی پالکی راج محل کے دروازے پر لگ جائے۔ کمان سے نکلا ہوا تیر واپس ہو سکتا ہے لیکن راجپوت کی قسم واپس نہیں ہوسکتی۔

بیٹے نے فاتحانہ تیور کے ساتھ جواب دیا۔ کسی طرح کی چنتا نا کرو ماں! سارا انتظام مکمل کر لیا گیا ہے۔ نورالدین پور کے راستے میں جو گھنا جنگل پڑتا ہے وہاں ہتھیاروں سے مسلح ہوکر ہمارے سپاہی پہنچ گئے ہیں۔ میں بھی چند سپاہیوں کے ساتھ وہیں جارہا ہوں انتظار کرو شام ہوتے ہوئے پالکی راج محل کے دروازے پر لگ جائے گی۔

نورالدین پور سے میل بھر کے فاصلے پر ایک گھنا جنگل پڑتا تھا جس کی لمبائی آدھ میل اور عرض تین میل کا تھا۔ سورج کی ٹکیہ تیزی سے افق کی طرف ڈھل رہی تھی۔ کہار دولہا اور دلہن کی پالکیاں لیے ہوئے اتنے تیز قدموں سے چل رہے تھے کہ باراتی پیچھے رہ گئے۔ جونہی بیچ جنگل میں پہنچے قریب ہی سے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سنائی دی اور پلک جھپکتے ننگی تلوار چمکاتے ہوئے دس پندرہ کڑیل جوانوں نے پالکیوں کو گھیر لیا۔ کہار اپنی جان کے خوف سے بے تحاشہ پالکی چھوڑ کر بھاگ گئے۔

سنسان جنگل میں دو ننھی جانوں کا اب کوئی محافظ نہیں رہ گیا تھا۔ جاگیر دار کس بیٹا شراب میں بدمست تھا۔ قریب آکر اپنے ساتھیوں کو للکارتے ہوئے کہا۔

ان دونوں پالکیوں کو اٹھا کر جنگل کے اندر فوراً لے چلو۔ عام راہگزر پر رکنا ٹھیک نہیں ہے۔ وہیں دولہا کا کام تمام کر کے نئی نویلی دلہن کے ساتھ پہلی رات کی ملاقات کی جائے گی۔
اچانک ایک غیر متوقع حادثے سے لالہ پر سکتے کی کیفیت طاری ہوگئی تھی دماغ ماؤف ہوکر رہ گیا تھا۔ ہوش جواب دے چکے تھے۔ یہ خوفناک آواز سنتے ہی لالہ کا خون سوکھ گیا۔ سب سے زیادہ ناموس کی فکر تھی جان کے لالے الگ پڑے ہوئے تھے۔ دولہا اپنی پالکی سے جست لگانا چاہتا تھا کہ دو سپاہیوں نے اسے رسی سے جکڑ کر باندھ دیا اور نہایت سرعت کے ساتھ دونوں پالکیوں کو اٹھا کر جنگل کے اندر لے چکے اور بیچ جنگل میں پہنچ کر گھنی جھاڑیوں کے درمیان انہیں رکھ دیا۔ اس کے بعد رسی میں جکڑے ہوئے دولہا کو پالکی سے باہر نکالا اور اسے قتل کرنے کے لیے دو سپاہی تلوار لے کر کھڑے ہوگئے۔ تلوار اٹھانا ہی چاہتے تھے کہ لالہ اس منظر کی تاب نا لاسکی وحشت و اضطراب میں پالکی سے باہر نکل آئی اور ایک مظلوم فریادی کے لہجے میں کہا۔ پہلے مجھے قتل کرو میں اپنے پتی کا خوں نہیں دیکھ سکوں گی۔

لالہ کے چہرے پر نظر پڑتے ہی ہیبت جمال سے قاتلوں پر سکتہ طاری ہو گیا ہاتھ لرز گئے گئے اور تلوار چھوٹ کر گر پڑی اتنے میں جاگیر دار کا بیٹا نشے کی حالت میں لالہ کے قریب پہنچ گیا اور خوشی سے جھومتے ہوئے کہا۔

اب اس وقت سے تمہارا پتی میں ہوں۔ بھول جاؤ اپنے اس پتی کو جس نے میری راہ میں حائل ہوکر اپنا خون حلال کرلیا۔

یہ کہتے ہوئے وہ لالہ کی طرف ہاتھ بڑھانا ہی چاہتا تھا کہ بے ساختہ لالہ کے منہ سے ایک چیخ نکل پڑی۔

"یاحسین رضی اللّٰہ عنہ! میری لجا کو بچاؤ"۔

یہ کلمہ سن کر جاگیر دار کا بیٹا غصے سے تلملا اٹھا اور دانت پیستے ہوئے کہا۔ ہندؤ دھرم کی لڑکی ہوکر مسلمانوں کے دیوتا کو پکارتی ہے۔ دیکھتا ہوں کون تجھے اور تیرے پتی کو میرے ہاتھ سے بچاتا ہے۔

یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے سپاہیوں کو پکارا۔ اب دیکھتے کیا ہو تلوار اٹھا کر اس کے پتی کے دو ٹکڑے کردو اور اس ادھرمی لڑکی کو شکنجے میں کس کر گھوڑے ہر باندھ دو۔ اب پالکی پر لاد کر لے جانے کا وقت نہیں ہے۔ ماں کو بچن دے چکا ہوں کہ سورج است ہونے سے پہلے پہلے راج محل کے دروازے پر سنار کی بیٹی پہنچ جائے گی۔

اس کی آواز پر سپاہی سنبھل کر کھڑے ہوگئے اور زمین پر گری ہوئی تلوار کو دوبارہ اٹھا لیا۔ ادھر دو سپاہی رسیوں جا شکنجہ لے کر لالہ کے پاس پہنچ گئے امیدوں کا چراغ گل ہونے میں اب صرف پلک جھپکتے کی دیر تھی۔ لالہ کا دل ڈوبتا جارہا تھا۔ تلوار اٹھ چکی تھی۔ شکنجوں میں کسنے والے ہاتھ لالہ کے قریب پہنچ چکے تھے امیدوں کے خون کے ساتھ انتظار کی گھڑی ختم ہوچکی تھی۔ اور اب کربلا والے سرکار کی غیبی امداد کا آبگینہ ٹوٹنے ہی والا تھا کہ اچانک فضا میں ایک بجلی کوندی ایک تلوار چمکی اور کڑکتی ہوئی دھمک سے آنکھیں بند ہوگئیں۔ تھوڑی دیر کے بعد آنکھوں کے پٹ کھلے تو زمین پر پندرہ لاشیں تڑپ رہی تھیں۔ رسیوں میں جکڑے ہوئے شوہر کی گرہیں کھل چکی تھیں اور وہ کھڑا مسکرا رہا تھا۔
 
جذبۂ عقدیت کی بے خودی میں لالہ اور اس کے شوہر کی پیشانیاں حسین رضی اللہ عنہ کے خدا کا سجدۂ شکر ادا کرنے کے لیے بے ساختہ زمین پر جھک گئیں۔ کربلا والے سرکار کی چمکتی ہوئی تلوار سے کافر ہی قتل نہیں ہوئے لالہ اور اس کے شوہر کا آبائی کفر بھی قتل ہوکے رہ گیا تھا"۔
 
اب ان کے سینوں میں ایک مومن کا دل جگمگا رہا تھا۔
 
جان کے خوف سے بھاگے ہوئے کہاروں نے نورالدین پور پہنچ کر سارا ماجرہ کہہ سنایا۔ خبر سنتے ہی سارے گاؤں میں کہرام برپا ہوگیا بجلی کی طرح سارے علاقے میں اس واقعہ کی خبر پھیل گئی۔ جس نے جہاں سنا وہیں سے جنگل کی طرف دوڑ پڑا۔ سنار اور اس کی بیوی کو اس حادثے کی اطلاع ملی تو وہ شدت کرب سے پاگل ہوگئے اور کلیجہ پیٹتے ہوئے اس مقام پرپہنچ گئے۔ جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا۔ لالہ کی ساس بھی بین کرتی ہوئی وہاں پہنچ گئی۔ دم کے دم میں ہزاروں افراد کا میلہ لگ گیا تھا۔ ہر شخص اس واقعہ کے اضطراب سے بے چین تھا۔ سید شریف کی بیوی بھی افتاں و خیزاں وہاں پہنچ گئی تھی۔
 
پالکیوں کی تلاش میں لوگ مشعل لے کر جنگل میں گھس گئے۔ کافی مسافت طے کرلینے کے بعد ایک جگہ جھاڑیوں کے جھنڈ میں انہیں کوئی چمکتی ہوئی چیز نظر آئی۔ وہاں پہنچے تو سب پر ایک سکتے کی کیفیت طاری ہوگئی۔ پالکیاں خالی پڑی ہوئی تھیں جھلسے ہوئے چہروں کے ساتھ زمین پر لاشوں کا انبار لگا ہوا تھا۔ رسیوں کی کمند الگ پڑی ہوئی تھی۔  تلواریں چمک رہی تھیں لیکن ان میں خون کا دھبہ نہیں تھا۔ حیرانی کے عالم میں لوگ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ادھر ادھر دیکھ رہے تھے۔ کہ چند ہی قدم  کے فاصلے پر سید شریف کو سرخ پیراہن کی ایک جھلک نظر آئی۔
 
مشعل لے کر آگے بڑھے تو دیکھا کہ دولہا اور دولہن زمین پر ماتھا ٹیکے ہوئے سجدے کی حالت میں بے خبر پڑے ہوئے ہیں۔
 
وفور حیرت میں منہ سے چیخ نکل پڑی دولہا' دولہن مل گئے۔ اس آواز پر سب لوگ بے تحاشہ دوڑ پڑے۔ نبض دیکھی تو چل رہی تھی۔ نیم بے ہوشی کا عالم طاری تھا سنار اس کی بیوی اور دولہا کی ماں جوڑے کو سلامت پا کر خوشی سے پاگل ہوگئے تھے۔
 
طلسم ہوشربا کی طرح یہ واقعہ پراسرار ہو گیا تھا۔ حیرت کی گرہ کھولنے کے لیےظاہری اسباب کی کوئی کڑی نہیں مل رہی تھی۔ ہوش آنے کے بعد بھی دولہا اور دولہن سکتے کے عالم میں تھے۔ ان کے منہ سے ایک لفظ نہیں نکل رہا تھا۔ فوراََ ہی انہیں پالکی پر لاد کر جونپور لایا گیا۔ رات بھیگ چکی تھی لیکن کئی ہزار آدمیوں کا ہجوم سنار کے دروازے پر ٹھٹھ باندھے کھڑا تھا۔ وہ دولہا اور دولہن کی زبان سے واقعہ کی حیرت انگیز تفصیل معلوم کرنے کے لیے بے چین تھے۔
 
اپنی مانوس پناہ گاہ میں پہنچ کر لالہ اب پوری طرح ہوش میں تھی۔ دولہا بھی سکتے کی  حالت سے باہر نکل آیا تھا۔
 
ماں سے برداشت نہیں ہوسکا تو اس نے لالہ سے دریافت کیا۔ بیٹی ! کیا واقعہ پیش آیا کچھ تو سنا دو۔ عقل کام نہیں کر رہی ہے دماغ پھٹا جارہاہے"۔ 
 
لالہ نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے ایک ایک کرکے سارا واقعہ کہہ سنایا۔
 
سرگزشت کا آخری حصہ بیان کرتے ہوئے رقت انگیز جذبات کے تلاطم میں ڈوب گئی۔ بڑی مشکل سے یہ الفاظ اس کے منہ سے نکل سکے۔
 
کربلا والے سرکار کو آواز دیتے ہی برق آسا ایک تلوار چمکی، ایک بجلی کوندی اور دہشت سے آنکھیں بند ہوگئیں۔ اس کے بعد کیا ہوا کیسے ہوا کچھ یاد نہیں۔ 
 
کچھ دیر کے بعد آنکھوں کے پٹ کھلے تو اتنا دیکھا کہ زمین پر بے جان لاشوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا اس کے بعد ہم لوگ سجدۂ شکر کے لیے زمین پر گر پڑے۔
 
کہانی یہاں تک پہنچ پائی تھی کہ جذبات میں ایک ہیجان برپا ہوگیا۔ حسین رضی اللہ عنہ کے نعروں سے سارے گھر میں ایک کہرام مچ گیا۔ بے خودی کے کیف میں لالہ کی ماں کھڑی ہوگئی اور دونوں ہاتھ اٹھا کر چیخ پڑی"۔ 
 
حسین رضی اللہ عنہ! تم سچے تمہارا دھرم سچا اور تمہارے جس ﷺ نانا جان نے تمہاری آتما کو اتھاہ شکتی بخشی ہے وہ سچے۔
 
حسین رضی اللہ عنہ! تم گواہ رہنا کہ آج سے میں تمہارے نانا جان کا دھرم قبول کرتی ہوں۔ آج ایمان و اسلام کی سچائی کا آفتاب سوا نیزے پہ چمک رہا تھا۔ واقعات کے راویوں کا کہنا ہے کہ اس دن دولہا اور دولہن کے متعلقین کے علاوہ ہزاروں افراد کربلا والے سرکار کی برکتوں سے مشرف بہ اسلام ہوگئے۔
 
منکریں نے بھی مان لیا کہ خاصانِ خدا کی غیبی چارہ گری کا عقیدہ کوئی فرضی کہانی نہیں ہے بلکہ ایک زندہ و جاوید حقیقت ہے۔ دل اگر بے یقینی کے آزار میں نہیں ہے' تو دنیا کی کوئی طاقت بھی اسے شکست نہیں دے سکتی "۔
 
 
 
دل ہی ڈبوئے دل ہی ترائے
دل دوست نہ دل سا دشمن 




از: علامہ ارشد القادری
کتاب: زلف و زنجیر